چہرۂ انور سے نور کی شعائیں – ملفوظاتِ محبوبِ ذات

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے ساری زندگی توحید اور نماز پر وعظ فرمائے اور نماز کی پابندی کی تلقین فرمائی۔ اپنے علم کی فراست سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو نماز کا پابند بنا دیا۔ جو لوگ دعا کے لیے آتے بامراد لوٹتے۔ آپ قدس سرہٗ العزیز کی پیشانی مبارک پر نورنی چاند تارا ہے‘ جس کا مشاہدہ آپ کے مریدین نے بچشمِ خود کیا ہے۔

ایک شب راقم الحروف نے دیکھا کہ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز اپنے تخت پر لیٹے ہوئے ہیں۔ آپ کے چہرۂ اقدس سے نور کی شعائیں پھوٹ رہی ہیں۔ چہرۂ اقدس اس قدر نورانی اور سفید تھا کہ اس کے مقابلے میں کوئی شے اتنی سفید نہیں ہو سکتی۔ اس نور کے مقابلے میں چاند کی روشنی بھی ماند تھی۔ میں اپنے برادرِ خورد سیّد اقبال احمد حسین صاحب اور اپنے ماموں سیّد حیدر علی شاہ صاحب کو بھی بلا کر لے آیا۔ انہوں نے بھی اس مقدس نور کا دیدار کیا۔ اس سے قبل ایسا نظارہ اندرونِ خانہ خواتین اکثر کرتی رہتی تھیں۔ ایسے جلوے کا مشاہدہ بھی عین سعادت ہے۔ اس جلوے سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور سرکارِ عالی کے وجودِ اطہر میں اللہ تعالیٰ کا نور انتہائی شدت سے جلوہ فگن تھا۔ ذات اور محبوب کوئی اور نہیں‘ دونوں یکجا جلوہ فگن ہیں۔ اس جلوے سے یہ تصدیق اور بھی قوی ہو گئی کہ حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز بلا شبہ محبوبِ ذات ہیں۔

ایک روز حضور سرکارِ عالی نے مریدین کو اپنے حجرے شریف میں بلا کر یہ شرف بخشا کہ آپ پلنگ پر تشریف فرما تھے‘ آپ کا رُخِ انور دعا والے کمرے کی طرف تھا۔ چہرۂ اقدس نہایت نورانی تھا۔ نور کی شعائیں اس انداز سے بکھر رہی تھیں کہ آپ کی ریش مبارک نظر نہ آ رہی تھی۔ شعائیں سامنے والی دیوار کو بھی روشن کر رہی تھیں۔ سارا حجرہ شریف منور تھا۔ متعدد مریدین اور راقم الحروف نے آدھ گھنٹے تک یہ مشاہدہ کیا اور بہت مسرور ہوئے۔

خلیفہ چوہدری شیر محمد صاحب نے ایسا ہی نظارہ اس سے قبل کیا تھا۔ چوہدری صاحب نے بیان کیا کہ ایک شب کی مجلس میں حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نے بندئہ عاصی کو اپنے قریب بلا کر فرمایا ہمارے چہرے کی طرف دیکھیں۔ میں نے اپنی نظریں اونچی کر کے چہرۂ اقدس کو دیکھا۔ چہرۂ اقدس اس قدر منور اور سفید تھا کہ دنیا کی کوئی شے اس کی مثال نہ ہو سکتی تھی۔ بلکہ اس مقدس نور سے کسی دنیاوی شے کا تقابل خلافِ حقیقت ہو گا۔ چوہدری صاحب نور کا مشاہدہ کر کے اللہ کے حضور سجدے میں گر پڑے اور زبان سے سبحان اللہ سبحان اللہ کا وِرد جاری ہو گیا۔ اللہ ربّ العزت کی حمد و ثناء جاری ہو گئی۔

حضور سرکارِ عالی نے عرش سے بالا ذاتِ مقدس کے نور کا مشاہدہ اور حقیقت منکشف کرتے ہوئے فرمایا کہ عرشِ معلی نورِ معلی ۔۔۔ ذاتِ حق کے مظاہر ہیں جو بیک وقت خفی ہیں اور جلی بھی ہیں۔ نورِ بصیرت والا اس کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔

حدیثِ قدسی میں ارشاد ہے:

كنتُ كنزا مخفيا فأحببتُ أن أعرف فخلقتُ خلق نور محمد

ترجمہ۔    میں ایک مخفی خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جائوں‘ پس میں نے نورِ محمد ﷺ کو پیدا کیا۔

ایک شب حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز نماز ادا کرتے ہوئے تخت سے غائب ہو گئے۔ بڑی تشویش ہوئی‘ ہر جگہ حضورِ پاک کو تلاش کیا گیا مگر کہیں نہ ملے۔ کچھ دیر بعد دیکھا تو حضور اس تخت پر کمبل اوڑھے رونق افروز تھے۔ خدمتِ عالیہ میں صورتِ حال پیش کی تو فرمایا کہ اوپر کچھ بہت اہم معاملات حل طلب تھے‘ اس لیے کچھ وقت کے لیے اوپر جانا پڑ گیا۔

حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کے ایک مرید محبوب نامی نے اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایک روز اس نے خود کو ایک میدان میں کھڑے پایا۔ دفعۃً جگہ صاف کی گئی‘ پانی چھڑکاؤ ہوا، صفین بچھ گئیں اور اعلان ہوا کہ تاجدارِ مدینہ ﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ پھر نماز شروع ہوئی۔ محبوب صاحب نے دیکھا کہ اس جماعت کے دو امام ہیں‘ دونوں بالکل ہم شکل ہیں۔ نماز سے فراغت پا کر محبوب صاحب بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہو کر دست بستہ عرض گزار ہوئے کہ نماز کے دو امام پہلے کبھی نہیں دیکھے نہ سنے۔ ان میں سے ایک ہستی نے فرمایا کہ ان دو اماموں میں ایک تمہارے مرشد ہیں۔ مگر محبوب صاحب دونوں ہستیوں میں تمیز نہ کر سکے کہ ان کے مرشد پاک کونسے ہیں کیونکہ دونوں شبیہ مبارک دیکھنے میں یکساں تھے۔ یہ مشاہدہ محبوب صاحب نے راقم الحروف کو اور کئی دوسرے مریدین کی موجودگی میں حضور سرکارِ عالی قدس سرہٗ العزیز کو سنایا۔ اس مجلس میں خلیفہ شیر محمد صاحب بھی حاضر تھے۔ وہ محبوب صاحب کے بیان کردہ مشاہدے کے گواہ ہیں۔

This entry was posted in ملفوظاتِ محبوبِ ذات, محبوبِ ذات and tagged , , , , , , , , , , , , , , . Bookmark the permalink.

اپنی رائے نیچے بنے ڈبے میں درج کر کے ہم تک پہنچائیں